حوزہ نیوز ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق،یہ سچ ہے کہ کسی بھی درسگاہ یا دانشگاہ کے تعلیمی معیار کی عظمت و بلندی اور اس کی سرخ روئی کا اندازہ اس کی فلک بوس عمارتوں اور وسیع و عریض آ راضی سے نہیں ہوتا ہے بلکہ اس کے لئے ضروری ہے کہ اس ادارہ کا تحقیقی ،فکری تنوع بالغ ہو۔ اور اس کے اندر متوازن تنقیدی مزاج و مذاق بہتر و مستحکم ہو۔ اس کو ایسے بھی سمجھا جا سکتا ہے کہ۔ اگر کسی ادارہ یا تعلیم گاہ کے پاس ،عظیم الشان اور اونچی اونچی ، خوبصورت عمارتیں تو موجود ہوں مگر اس کا تعلیمی اور تحقیقی شعور نہایت پست ہو تو اس ادارے کی ارباب فکر و نظر اور دانش و بینش کے یہاں کوئی بھی وقعت واہمیت نہیں ہوتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ جامعات و دانشگاہوں کو جو چیز نمایاں مقام عطا کرتی ہے وہ اس کی مثبت تحقیقی کار کردگی ہوتی ہے۔ جب ہمارے تعلیمی اداروں میں تعلیم کا اچھا نظم و نسق ہوگا تو اس کا براہ راست فائدہ سماج کو ہوتا ہے۔ ہماری تحقیقی،علمی و عرفانی صلاحیتوں کے عروج وارتقا سے قوموں اور معاشروں میں حصول علم کے لئے بیدار ی پیدا ہوتی ہے۔ معاشرے کے افراد ہر دن تفتیش کے جدید گوشوں اور عصری تقاضوں سے آشنا ہوتے ہیں ۔وہ تعلیم کے میدان میں فتح حاصل کرنے کے روشن خطوط سے واقف ہوتے ہیں۔ مثبت تعلیمی سرگرمیاں اور منطقی تعلیمی نظام جہاں اس معاشرے کو پر افتخار بناتا ہے، وہیں اس ملک و وطن کی بھی بین الاقوامی سطح پر منفرد شناخت قائم کرتا ہے۔
یاد رکھیے آ ج ہم جن مفکرین اور سائنسدانوں کے نظریات کی اتباع کرتے ہیں یا ان کی تھیوری پر عمل پیرا ہیں ان سے صرف اس شخصیت ہی کا اقبال بلند نہیں ہوتا ہے بلکہ وہ اپنے سماج ، قوم اور ملک کا سر فخر سے بلند کرتے ہیں۔ چنانچہ بہتر تعلیم وتحقیق اور تربیت و اصلاح سے قومیں اور معاشرے متمدن و مہذب کہلاتے ہیں۔ تاریخ شاہد ہے کہ جب بھی کسی معاشرے نے اپنے یہاں تعلیم و تحقیق اور علوم و فنون کے جہان کو آ باد کیا ہے یا فروغ و ترویج سے ہمکنار کرنے کی سعادت حاصل کی ہے، ان معاشروں کی بالادستی اور تفوق و تقدم کا لوہا ہر دور میں تسلیم کیا گیاہے۔ اس لئے ہمیں اپنے تعلیمی اداروں میں تحقیقی اور تعلیمی روایات واقدار کو نہ صرف مستحکم بنانا ہوگا بلکہ ہمیں اس سطح پر کاوش کرنی ہوگی جس سے ہمارے معاشرے میں علم و تحقیق کی شمع کا اجالا ہر گھر تک پہنچ سکے۔ تعلیمی اداروں کا امتیاز یہی ہے کہ وہ اپنے یہاں تعلیم کے معیار کو زیادہ سے زیادہ لائق اتباع بنائیں ۔ سماج وقوم اور ملک وطن کو اپنی تحقیقی تخلیقات سے ہم آہنگ کریں۔ آ ج ضرورت سب سے زیادہ ہمارے سماج کو تعلیم و تحقیق کی ہے۔ جن ممالک اور اقوام کو آ ج تعلیم وتحقیق کا ہیرو کہا جاتا ہے انہوں نے بلا انقطاع اس جانب محنت ولگن سے کام کیا ہے۔ اس لئے تعلیم کے تئیں ہمیں اپنی سرد مہری کوتوڑ نا ہوگا۔ نیز ان روایات وحقائق کی پیروی کرنی ہوگی جن سے سماج کے اندر حصول علم کا تصور عام ہوجائے اور یہ جد وجہد تمام معاشرے میں صور پھونکنے کے مترادف ہو۔ تعلیمی اداروں کی روح ،تحقیقی اور صالح تنقید کا فروغ ہے۔ یہی رویہ معاشرے میں توازن و اعتدال کے لئے راہ ہموار کرتاہے، تعدد پسند افکار کی پرزور حمایت کرتا ہے۔ جو ادارے اس خصوصیت سے باہر ہوں تو وہ صرف ایک ڈھانچہ سے زیادہ کچھ بھی نہیں ہیں ۔ گویا دانشگاہوں اور جامعات و درسگاہوں کی روح و غذا ان کا بلند تعلیمی نظام و نصاب اور تحقیقی صلاحیتوں کا پروان چڑھناہے۔
زندہ اور باشعور قومیں اپنی صلاحیتوں سے زندگی کی تعمیر صالح خطوط پر کرتی ہیں۔ تحقیقی وفنی جدت کو بڑھاوا دیتی ہیں ۔ خوہ وہ کہیں بھی ہوں ان کے اندر قوم و ملت کی ہمدردی پائی جاتی ہے۔ اب ضرورت اس بات کی ہے ہم کہیں بھی ہوں کسی بھی ادراہ یا شعبہ سے وابستہ ہوں ہمیں اپنی خوابیدہ استعداد سے عالمی سطح پر فائدہ پہنچانا ہوگا۔ اس کے لئے بہتر راستہ یہی ہے کہ ہم ان پڑھ معاشروں کو علم کے گوہر سے زیادہ سے زیادہ آ راستہ کریں۔ ہندوستان ہی نہیں بلکہ دنیا بھر میں تعلیمی اداروں کی کثیر تعداد ہے۔ جو اپنے اپنے اعتبار سے ملک و قوم کی خدمات انجام دے رہی ہیں۔ انہی میں ایک اہم دانشگاہ علیگڑھ مسلم یونیورسٹی ہے ۔ دانشگاہ علی گڑھ صرف صحت مند تعلیمی وتحقیقی نظام کے لئے ہی نہیں جانی جاتی ہے بلکہ اس کے ساتھ ساتھ یہاں کی تہذیب و تربیت بھی ممتاز حیثیت کی حامل ہے۔ اسی وجہ سے علیگڑھ مسلم یونیورسٹی کے تعلیمی وتحقیقی خدمات کا اعتراف ملک و بیرون ملک کی تجزیاتی کمیٹیوں اور اداروں نے بارہا کیا ہے۔ خوشی کی بات یہ ہیکہ عالمی ادارہ 'یوایس نیوز اینڈ ورلڈ رپورٹ ' نے اپنے تازہ سروے میں اے ایم کے بایولوجی و بایو کیمسٹری شعبہ کی تحقیقی صلاحیتوں کو سراہا ہے۔ یوں تو دانشگاہ علی گڑھ کے تمام شعبے تعلیمی و تحقیقی اعتبار سے نہایت مستحکم و مستعد ہیں۔ البتہ دانشگاہ علیگڑھ کے شعبہ ریاضی، فزکس اور کیمسٹری کو بھی ممتاز مقام درجہ دیا گیا ہے۔ علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کے صدی سال میں اس کے تعلیمی و تحقیقی معیار کا لگاتار اعتراف کیا جارہا ہے جو نہ صرف علیگ برادری کے لئے باعث مسرت ہے بلکہ پورے ملک کے لئے عظمت کی واضح علامت ہے۔
علیگڑھ مسلم یونیورسٹی کو چار موضوعات میں ہندوستانی یونیورسٹیوں اور تعلیمی اداروں میں اعلیٰ رینک عطا کی ہے اور ایک بار پھر اعلیٰ تعلیم اور تحقیق میں اے ایم یو کے بلند معیار و مرتبہ کا اعتراف کرنا کوئی معمولی بات نہیں ہے۔
شعبہ بایولوجی اور بایوکیمسٹری میں اے ایم یو نے سبھی ہندوستانی یونیورسٹیوں اور اداروں کو پیچھے چھوڑتے ہوئے سرفہرست درجہ حاصل کیا ہے جب کہ ریاضی، فزکس اور کیمسٹری میں بھی اے ایم یو کو نمایاں مقام عطا کیا گیا ہے۔
واضح رہے کہ''یو ایس نیوز اینڈ ورلڈ رپورٹ'' کا قیام 1933 میں عمل میں آیا ہے۔ اس عالمی ادارہ نے اس وقت اپنی ساتویں سالانہ سروے میں دانشگاہ علیگڑھ سے وابستہ جو پر مسرت خبر دی ہے اس کی افادیت سے قطعی انکار نہیں کیا جا سکتا ہے۔ یونیورسٹیوں کے چارٹ میں اے ایم یو کو 34.1 کا سبجیکٹ اسکور حاصل ہوا ہے۔ جب کہ 33.7 کے سبجیکٹ اسکور کے ساتھ 'انڈین انسٹی ٹیوٹ آف سائنس 'بنگلور دوسرے نمبر پر رکھا گیاہے ، اور آئی آئی ٹی دہلی 31.1 کے سبجیکٹ اسکور کے ساتھ تیسرے مقام پر ہے۔ دوسری اہم بات یہ ہیکہ ریاضی میں علی گڑھ مسلم یونیورسٹی ہندوستان کا واحد ادارہ ہے جسے اس رینکنگ میں شامل کیا گیا ہے۔ فزکس میں ہندوستانی یونیورسٹیوں میں اے ایم یو پانچویں مقام پر ہے جب کہ ہندوستانی اداروں میں وہ گیارہویں مقام پر ہے۔
اسی طرح کیمسٹری میں اے ایم یو کو ہندوستانی یونیورسٹیوں میں نواں مقام اور مجموعی اعتبار سے سبھی ہندوستانی اداروں میں اکیسواں مقام عطا کیا گیا ہے۔
امریکی میڈیا ادارے کی اس رینکنگ میں اے ایم یو کی درجہ بندی کی جانے اور اس کو سر فہرست مقام حاصل کرنے کی وجہ سے شیخ الجامعہ پروفیسر طارق منصور نے جو تاریخی کلمات کہے ہیں وہ ان کے روادارانہ مزاج کے غماز ہیں:''یہ کارکردگی ہمارے اساتذہ اور محققین کی مسلسل محنت و سنجیدگی کا صلہ ہے۔ اے ایم یو کے ریسرچ اسکالرز اور طلبہ و طالبات مبارکباد کے مستحق ہیں جن کی کاوشیں رنگ لارہی ہے اور اس دانش گاہ کی عظمت کا اعتراف بین الاقوامی سطح پر کیا جارہا ہے۔''
اے ایم یو میں یونیورسٹی رینکنگ کمیٹی کے چیئرمین پروفیسر ایم سالم بیگ نے بتایا کہ موضوع کے اعتبارسے اس رینکنگ میں اکیڈمک ریسرچ کی کارکردگی کو بنیاد بنایا گیا ہے۔ قابل ذکر ہے کہ 'یوایس نیوز اینڈ ورلڈ رپورٹ 'کی موضوعاتی رینکنگ میں ریاضی میں دنیا کے 250 ممتاز اداروں، بایولوجی اور بایوکیمسٹری میں 500، فزکس میں 750، اور کیمسٹری میں 750ممتاز یونیورسٹیوں اور تعلیمی اداروں کو شامل کیا گیا ہے ۔یہ خبر جہاں ارباب دانش اور اہلیان علم وفن کے لئے خوش آ ئند ہے وہیں اس کی افادیت یہ بھی ہے کہ دانشگاہ علی گڑھ کی خدمات کا بین الاقوامی سطح پر اعتراف کیا جانا صرف ادارے تک محدود نہیں ہے بلکہ یہ پورے وطن کے لئے سرمایہ افتخار ہے۔ نیز اس سے نوجوان نسل کے اندر نہایت مثبت پیغام جائے گا اوران کے اندر تعلیم کے تئیں ایک تحریک وجذبہ پیدا ہوگا۔ اس تناظر میں یقیناً دانشگاہ کی خدمات کی تصدیق وتوثیق سے مستقبل میں بھی انتہائی مفید اثرات مرتب ہونگے۔ ایک نئی تعلیم کے لئے ایک نئی فکر اور فضاء ہموار ہوگی جو ہماری بنیادی ضرورت ہے۔
آ ج دنیا بھر میں جو عالمی سطح پر دانشگاہ علیگڑھ کے تحقیقی اور علمی رتبے کو قدر کی نگاہ سے دیکھا جارہا ہے اس کا سہرا وائس چانسلر پروفیسر طارق منصور کے سر نہ باندھنا بڑی ناسپاسی ہوگی۔ یقینا شیخ الجامعہ کی سربراہی میں یونیورسٹی مسلسل ترقی کی طرف گامزن ہے۔ اس کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ شیخ الجامعہ مخلصانہ طور پر یونیورسٹی کی خدمات انجام دے رہے ہے۔ یہی وجہ ہے کہ چند ماہ قبل یونیورسٹی کوقومی سطح پر چوتھا مقام حاصل ہوا تھا۔ کسی بھی ادارے کا تعلیمی معیار اسی وقت بلند ہوتا ہے جب اس کا نگراں و سر پرست قوم و ملت کا سچا بہی خواہ اور ادارے کے لئے مخلص و وفادار ہو ۔ شیخ الجامعہ پروفیسر طارق منصور کا امتیاز و انفرادیت یہی ہے کہ وہ ادارہ کے تئیں فعال و متحرک نظر آ تے ہیں تو علم و تحقیق کے زیور سے خود بھی مزین ہیں۔ اب ضرورت اس بات کی ہے کہ ہم تعلیمی اقدار اور اس کے روحانی تقاضوں کو سنجیدگی سے فروغ دیں۔ تاکہ ہمارا اداراہ مزید ترقیات سے ہم آہنگ ہو سکے۔ جتنا تعلیم کو فروغ دیاجائے گا اتنا ہی ہم سر سید کے مشن کو تکمیل تک پہنچانے میں کامیاب ہونگے۔
یاد رکھئے قومیں وہی زندہ اور باشعور سمجھی جاتی ہیں جن کا نصب العین تعلیم و تحقیق ہوتا ہے۔ کوئی بھی سماج اس دنیا میں اگر عزت و وقار کے ساتھ رہنا چاہتا ہے اور خوشحال زندگی گزارنا خواہاں ہے تو ضروری ہے کہ ان کو تحقیق و تفتیش کی معراج حاصل کرنی ہوگی۔ شیخ الجامعہ پروفیسر طارق منصور کا ہدف اور بنیادی مقصد یہی کہ یونیورسٹی کے ساتھ ساتھ قوم کے اندر بھی تحقیق وجستجو کی شمع روشن ہوسکے۔ علم وفن اور تحقیق وتنقید در اصل وہ جوہر ہے جو کسی بھی قوم کے لئے ضروری ہے۔